مٹے کچھ ایسے کہ موجود خاک و خس بھی نہیں
کہاں نشاں نشیمن کہیں قفس بھی نہیںتلاش کرنا ہے خود ہم کو جادۂ منزل
کہ راہبر کوئی اب اپنے پیش رپس بھی نہیں
یہ روز روز کے طعنے، یہ صبح و شام کے طنز
سلوک دوست بجا، لیکن اس پہ بس بھی نہیں
ہر اک نفس پہ مسلط ہے تلخی ماحول
جئیں تو کیسے جئیں زندگی میں رس بھی نہیں
تباہ کر دے جو پاکیزگی کے دامن کو
بلند اتنا مگر شعلہ ہوس بھی نہیں
وہ اس مقام سے صادق پکارتے ہیں ہمیں
جہاں ہمارے تخیل کی دسترس بھی نہیں
کیا آپ کو یہ غزل پسند ای اپنے comments کے ذریے ہمیں بتایں
0 comments:
Post a Comment