Tweet This
Posted by Unknown
On 7:17 PM
میرے شہر میں یہ جنگل کا قانُون لگتا ہے۔
کسی کے ہاتھوں پر رنگا خون انسانی لگتا ہے۔
مُسلمان ہونے کی اتنی سزا نہ دیں فرنگی۔
سمندر کو تیور بدلنے میں کہاں وقت لگتا ہے۔
...جس آگ سے جلائے جا رہا ہے مُسلسل۔
ان شعلوں کی دشمنی کا کیا پتہ لگتا ہے۔
تُجھے انسان کہتے زبان چُھبتی ہے اب۔
امن کا پرچم تھامے تو ایسا دعویدار لگتا ہے۔
اور ہے تیرے تلوے چاٹنے والوں پر لعنت۔
اپنا گھر اُجاڑنے کا یہ عجب تماشہ لگتا ہے۔
خون کے ایک ایک قطرے کا حساب دینا ہوگا۔
ہمارے رب کے ہاں جُدا قانون خانہ لگتا ہے۔
یاد رکھنا گریبان تیرا ہاتھ ہمارے ہو گئے۔
تیرا ہونے والا حشر فرعون جیسا لگتا ہے۔
ہم وطنوں کمر بستہ ہونے کا وقت آن پہنچا۔
اب محوِ آغوش رہنے سے مُجھے ڈر لگتا ہے
کیا آپ کو یہ غزل پسند ای اپنے comments کے ذریے ہمیں بتایں
0 comments:
Post a Comment