محسن نقوی اُجڑے ہُوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانیے کیوں تیز ہَوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اُڑا کر
اب دستکیں دے گا تُو کہاں اے غمِ احباب
میں نے تو کہا تھا کہ مِرے دل میں رہا کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گِرا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تُو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر
میں مر بھی چکا، مل بھی چکا موجِ ہوا میں
اب ریت کے سینے پہ مِرا نام لکھا کر
پہلا سا کہاں اب مِری رفتار کا عالم
اے گردشِ دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر
اِس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر
محسن نقوی
کیا آپ کو یہ غزل پسند ای اپنے comments کے ذریے ہمیں بتایں
3 comments:
HEART TOUCHING ..:'( ...FROM SANA SYED
Mind blowinh
Aaala
My fvrt
Post a Comment