تیری سوچوں میں تیری سوچ کے محور میں کیا ہے
تو مجھ سے سن تیری خدائی کی تمنا کیا ہے
میں تیری روح میں اترا تھا کہاں کب کیسے
تجھے معلوم ہے سننے کا بہانا کیا ہے
میں تیرے ہجڑ میں صدیاں گزار سکتا ہوں
یہ چار دن کی جدائی کا نبھانا کیا ہے
میں تیری ذات پہ خود کو بھی وار سکتا ہوں
یہ سورج چاند ستاروں کا لٹانا کیا ہے
اپنی الفت کے ایک لمحے سے نواز مجھے
اس ایک لمحے میں صدیوں کا گزر جانا کیا ہے
ہر ایک جنم میں مسلسل میرا حاصل
تم ہو تیرے لئے فقت ایک عمر لٹانا کیا ہے
میری دعا میرے اللہ تک بھی پہنچے گی
مجھے ظالم کو اس فلق کو ہلانا کی ہے
میری آنکھوں کی جھیلوں میں وہ اضطراب آیا
کہ سمندر کے طوفان کا فسانہ کیا ہے
کہی پھر سے نا آنکھیں ٹوٹ کر برسیں ساون سی
مجھ سے نا پوچھ کے اشکوں کا فسانا کیا ہے
تو کسی شجر کے اجڑے ہوئے پتوں سے پوچھ
تجھے رو رو کے سنائے گا فسانہ کیا ہے
تو مجھ سے سن تیری خدائی کی تمنا کیا ہے
میں تیری روح میں اترا تھا کہاں کب کیسے
تجھے معلوم ہے سننے کا بہانا کیا ہے
میں تیرے ہجڑ میں صدیاں گزار سکتا ہوں
یہ چار دن کی جدائی کا نبھانا کیا ہے
میں تیری ذات پہ خود کو بھی وار سکتا ہوں
یہ سورج چاند ستاروں کا لٹانا کیا ہے
اپنی الفت کے ایک لمحے سے نواز مجھے
اس ایک لمحے میں صدیوں کا گزر جانا کیا ہے
ہر ایک جنم میں مسلسل میرا حاصل
تم ہو تیرے لئے فقت ایک عمر لٹانا کیا ہے
میری دعا میرے اللہ تک بھی پہنچے گی
مجھے ظالم کو اس فلق کو ہلانا کی ہے
میری آنکھوں کی جھیلوں میں وہ اضطراب آیا
کہ سمندر کے طوفان کا فسانہ کیا ہے
کہی پھر سے نا آنکھیں ٹوٹ کر برسیں ساون سی
مجھ سے نا پوچھ کے اشکوں کا فسانا کیا ہے
تو کسی شجر کے اجڑے ہوئے پتوں سے پوچھ
تجھے رو رو کے سنائے گا فسانہ کیا ہے
کیا آپ کو یہ غزل پسند ای اپنے comments کے ذریے ہمیں بتایں
0 comments:
Post a Comment