Tweet This
Posted by Unknown
On 6:10 PM
پرانے زرد پتوں کے بہانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
یہ پتے خاک کا زیور نہیں تھے
یہ سارے ہی بلندی پر کہیں تھے
جو مارے مارے پھرتے ہیں دیوانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
ہیں اپنے درد کے ہمراز پتے
ہر اک موسم سے ہیں ناراض پتے
انھیں اب کون آئے گا منانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
یہ پیلے دل ہوا کے آسرے پر
پڑے ہیں بس خدا کے آسرے پر
کوئی آیا نہیں ان کو اٹھانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
کبھی شاخوں سے تھے پھوٹے پرندے
یہ ہرجائی بڑے جھوٹے پرندے
یہ پتے یہ خزاؤں کے فسانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
پرانے زرد پتوں کے بہانے
درختوں سے اتر آئے زمانے
کیا آپ کو یہ غزل پسند ای اپنے comments کے ذریے ہمیں بتایں
0 comments:
Post a Comment