نصيب ہی ايسے ہيں
ہم لڑکيوں کے
ڈرتی رہتی ہيں، اپنے لڑکی ہونے سے
زمانہ کيا کہے گا
دنيا کيا سوچے گی
...لوگ باتيں کريں گے
خواہشوں کے موتی، سدا بند رکھتی ہيں
اپنے ہی وجود کی سيپيوں ميں
کہ سطح پر آ کر ہميں آشکار نا کر ديں
تمنائيں دفن رکھتی ہيں اپنے وجود کی قبر ميں
کہ اُن سے کوئی خوشبو پھوٹ کر ہميں بدنام نا کردے
ستی ہو جاتی ہيں، انہی وجود کی قبروں ميں
اگرچہ ہميں اجازت نہيں ستی ہونے کی
ہم کانچ جيسی لڑ کياں
نازک اور نرم
تيتريوں جيسی، پھولوں جيسی
خوبصورت ناموں والی لڑکياں
پکاری جاتی ہيں
ابھاگن، منحوس اور کوکھ جلی جيسی
تاريک اور مکروہ ناموں سے
ہمارے مقدّر
ہمارے ٹائٹل کيوں بن جاتے ہيں؟
بيوہ، مطلقہ، يتيم، بانجھ
کیا آپ کو یہ غزل پسند ای اپنے comments کے ذریے ہمیں بتایں
0 comments:
Post a Comment