انہیں تو اک ذرا سی بات پہ شکوے بہت ہیں
اکیلے ہم اپنے آپ سے الجھے بہت ہیں
تیری یادوں کی خوشبو ڈھونڈ ہی لاتی ہے دل کو
ہوا آندھی سہی، خوابوں کے دروازے بہت ہیں
بگلولے کا سفر ہے زندگانی کا سفر بھی
کوئی منزل نہیں*اپنی ، مگر راستے بہت ہیں
بہت نایاب ہے جنس وفا بازار دل میں
مگر ہم ہیں کہ اس موسم میں بھی سستے بہت ہیں
خزاں کی ہم پہ اتنی مہربانی کیوں*ہے
ہمارے صحن میں*سوکھے ہوئے پتے بہت ہیں
ابھی آنکھوں میں تھوڑی روشنی باقی ہے جوہر
اگر چہ آئینہ امید کے ٹوٹے بہت ہیں
کیا آپ کو یہ غزل پسند ای اپنے comments کے ذریے ہمیں بتایں
0 comments:
Post a Comment